ساغر صدیقی کی غزل
٭٭٭٭٭٭٭
ہے دعا یاد مگر حرف دعا یاد نہیں
میرے نغمات کو انداز نوا یاد نہیں
میں نے پلکوں سے دیار یار پہ دستک دی ہے
میں وہ سائل ہوں جسے کوئی صدا یاد نہیں
ہم جن کے لئے راہوں میں بچھایا تھا لہو
ہم سے کہتے ہیں وہیں عہد وفا یاد نہیں
کیسے بھر آئیں سرشام کسی کی آنکھیں
کیسے تھرائی چراغوں کی ضیا یاد نہیں
صرف دھندلائے ستاروں کی چمک دیکھی ہے
کب ہوا ، کون ہوا کس سے خفا یاد نہیں
زندگی جبر مسلسل کی طرح کاٹی ہے
جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں
آؤ اک سجدہ کریں عالم مدہوشی میں
لوگ کہتے ہیں ساغر کو خدا یاد نہیں
٭٭٭٭٭٭٭
No comments:
Post a Comment